حرفِ آغاز

اخلاق

 

 مولانا حبیب الرحمن اعظمی

 

دینِ اسلام میں ”ایمان“ کے بعد ”عملِ صالح“ کا درجہ ہے؛ چنانچہ قرآن حکیم میں تنہا ایمان یا تنہا عملِ صالح کو نہیں؛ بلکہ دونوں کے مجموعہ کو نجاتِ کامل کا ذریعہ بنایاگیا ہے، اسی حقیقت کو اچھی طرح آشکارا کرنے کے لیے آیت پاک ”الَّذِیْنَ آمَنُوا وَاعْمَلُوا الصٰلحٰت“ کو ایک دو مقام پر نہیں؛ بلکہ معمولی سے لفظی فرق کے ساتھ پینتالیس بار ذکر کیاگیا ہے۔

اس موقع پر یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ ”عمل صالح“ کا مفہوم بڑی وسعت و ہمہ گیری کا حامل ہے، انسانی اعمالِ خیر کی تمام جزیات اس میں داخل ہیں، تاہم اس کی جلی تقسیم عبادات، اخلاق، اور معاملات سے کی جاسکتی ہے، اعمال صالحہ اور ہر وہ بھلے کام جن کا خاص تعلق رب ذوالجلال والاکرام سے ہے، اسے فقہاء کی اصطلاح میں ”عبادت“ کہا جاتا ہے، اور جن کا تعلق بندوں کے باہمی حقوق و فرائض سے ہے؛ ان کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جس کی حیثیت صرف انسانی فرض کی ہے اس کو ”اخلاق“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جن پر قانونی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے یہ ”معاملات“ کے عنوان سے معنون ہے۔

آج کی صحبت میں دینِ اسلام کے اسی دوسرے باب یعنی ”اخلاق“ پر مختصر سی گفتگو مقصود ہے، ایک انسان کا اس دنیا میں اپنے گرد و پیش کی ہر چیز سے تھوڑا بہت ربط وتعلق ہوتا ہے، اسی ربط و تعلق کے حق کو خوبی اوراچھائی کے ساتھ ادا کرنے کا نام اخلاق ہے، ایک آدمی کے اپنے ماں، باپ، عزیز واقارب، دوست واحباب وغیرہ سب سے تعلقات ہیں، علاوہ ازیں ہر اس انسان سے اس کا ایک گونہ تعلق ہے جس سے وہ پڑوس، محلہ، وطن، قومیت، جنسیت وغیرہ کا علاقہ رکھتا ہے؛ بلکہ اس سے بھی آگے حیوانات اور جانوروں سے بھی فی الجملہ اس کے تعلقات ہیں، پھر ان تعلقات کی حیثیت کے مطابق اس پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، دنیا میں امن وچین، خوشی وخوشحالی انھیں اخلاقی ذمہ داریوں کی بحسن وخوبی ادائیگی پر منحصر ہے۔

اخلاق کی اسی اہمیت اور ہمہ گیر افادیت کی بنا پر دنیا کے سارے مذہبی پیشواؤں نے اپنے مذہب کی بنیاد اسی اخلاق پر رکھی ہے؛ چنانچہ دنیا میں اب تک جس قدر پیغمبر اور مصلح آئے سب نے بیک زبان یہی درس دیا کہ سچ بولنا اچھا ہے، جھوٹ بولنا برا ہے، عدل وانصاف نیکی اور ظلم و زیادتی برائی ہے، الفت ومحبت کے ساتھ باہم زندگی گزارنا انسانی شرافت ہے، ایک دوسرے سے نفرت وعداوت حیوانی خصلت ہے، صدقہ وخیرات نیکی ہے اور چوری و رہزنی بدی ہے وغیرہ؛ لیکن دینِ اسلام تو اس باب میں تکمیلی مقام ومرتبہ کا حامل ہے، پیغمبرِ اسلام  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”بعثتُ لِأتَمِّمَ مَکارِمَ الأخْلاقِ“: میں تو اسی لیے بھیجا گیا ہوں کہ اچھے اخلاق کی تکمیل کردوں؛ چنانچہ بعثت کے وقت ہی سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فرض کی انجام دہی شروع کردی تھی، مکی دور کے آغاز میں ابوذرغفاری نے اپنے بھائی کو نئے پیغمبر کے حالات وتعلیمات کی تحقیق کے لیے بھیجا تو انھوں نے واپس جاکر اس بارے میں اپنے بھائی کو جو اطلاع دی وہ یہ تھی ”رَأَیْتُہ یَأْمُرُ بِمَکَارِمِ الْأخْلَاقِ“ میں نے انھیں دیکھا کہ وہ اچھے اخلاق کی لوگوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ اسلام میں اخلاقِ حسنہ کی جس قدر اہمیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ خلق عظیم کے حامل پیغمبر اعظم  صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں جو دعا مانگتے تھے، اس کا ایک جزء یہ بھی ہوتا تھا ”وَاھْدِنِيْ لِأحْسِنَ الْأخْلَاقَ“ الحدیث، بار الٰہا! مجھے بہترین اخلاق کی رہنمائی فرما!

اسلام میں اخلاق ہی وہ معیار ہے، جس سے باہم انسانوں میں فرقِ مراتب نمایاں ہوتا ہے۔ نبیِ رحمت  صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ”خِیَارُکُمْ اَحْسَنُکُمْ أخْلَاقاً“: تمہاراسب سے بہتر اخلاق والا تم میں سب سے بہتر اور بھلا ہے۔ اخلاق قدرت کا سب سے اچھا عطیہ ہے، فرمانِ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ”خَیْرُ مَا أُعْطِیَ النَّاسُ خُلُقٌ حَسَنٌ“: لوگوں کو جو چیزیں عطا کی گئی ہیں، ان میں سب سے بہتر اچھے اخلاق ہیں۔

اسلام جہاں اپنے ماننے والوں کو اپنے والدین، اولاد دیگر رشتہ داروں اور ہم مذہب والوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور حسنِ اخلاق کا حکم دیتا ہے، وہیں بلا تفریقِ دین و مذہب محض انسانیت کے ناطے پوری انسانی برادری کے ساتھ بھی حسنِ اخلاق اور رواداری کی تاکید کرتا ہے، بالخصوص پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی اس قدر تاکید کی گئی ہے کہ آں حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جبرئیل نے مجھے پڑوسی کے حقوق کی اس قدر تاکید کی کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ کہیں پڑوسی کو وراثت میں شریک نہ بنادیں، ایک موقع پر فرمایا کہ جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ پڑوسی کی عزت کرے، ایک دفعہ انتہائی دلنشیں اور موٴثر طریقہ پر پڑوسی کے حق کو بیان کرکے فرمایا: بخدا وہ مومن نہیں ہوگا، بخدا وہ مومن نہیں ہوگا، بخدا وہ مومن نہیں ہوگا! صحابہٴ کرام نے پوچھا کون یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ؟ فرمایا: وہ جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ رہے۔ آں حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تعلیمات کا یہ اثر ہوا کہ ہر صحابی اپنے پڑوسی کا بھائی اور مددگار بن گیا تھا، ہمسایوں میں دوست ودشمن، مسلم اورغیر مسلم کی تمیز اٹھ گئی تھی؛ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک دفعہ ایک بکری ذبح کی آپ کے پڑوس میں ایک یہودی رہتا تھا، غلام کو ہدایت کی کہ سب سے پہلے گوشت پڑوسی کو پہنچادے، ایک شخص نے کہا: وہ تو یہودی ہے، فرمایا :یہودی ہے تو کیا ہوا، یعنی یہ تو حقِ ہمسائیگی ہے جس میں اپنے پرائے کی تفریق نہیں۔

اسلام اپنے ماننے والوں کو تلقین کرتا ہے کہ ایک انسان کے دوسرے انسان پر انسانی برادری کی حیثیت سے بھی کچھ حقوق و فرائض ہیں، جن کا ادا کرنا مسلمان کا مذہبی واخلاقی فرض ہے، چنانچہ قرآن حکیم میں ہے: ”قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا“ لوگوں سے اچھی بات کہو، آں حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”لَا یَرْحَمُ اللہُ مَنْ لَا یَرْحَمِ النَّاسَ“: اللہ اس پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا ہے۔ ایک حدیث میں آپ نے فرمایا: ”اِرْحَمُوْا مَنْ فِي الْأرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فِی السَّمَاءِ“: تم لوگ زمین والوں پر رحم کرو تو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ ایک حدیث میں آپ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو پانچ باتوں کی تعلیم دی، اس میں چوتھی بات یہ تھی ”اَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِکَ تَکُنْ مُسْلِماً“: لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو، تو قابل تعریف مسلمان بن جاؤگے۔ یہ اخلاق کی وہ تعلیم ہے جو انسانی برادری کے تمام حقوق کی بنیاد ہے۔

الغرض! دینِ اسلام کی یہی وہ انسانیت نواز تعلیم ہے، جس نے اس کے باوفا نام لیواؤں میں ایسی محبوبیت پیدا کردی تھی کہ دنیا کے جس حصہ میں بھی پہنچ گئے وہاں کے وہ آنکھوں کا نور اور دلوں کا سرور بن گئے؛ چنانچہ چودھویں صدی ہجری کا مشہور سیاح وجغرافیہ نویس ابواسحاق اصطخری جو ہندوستان بھی آیا تھا، اپنی مفید کتاب ”مسالک الممالک“ میں لکھتا ہے:

”جنوبی ہند میں عرب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد ہی آنے لگے تھے اورانھوں نے جنوبی ہند کے ساحلوں خصوصاً ملیبار میں اپنے اخلاق کی بلندی اور میل جول کی رواداری سے ان علاقوں کے لوگوں پر خوشگوار اثرات پیدا کیے، ہندو راجاؤں کی نظروں میں بھی کافی عزت اور توقیر حاصل کرلی تھی، یہی وجہ تھی کہ جب وہ اپنی مذہبی تبلیغ کرتے تو ان کی سرگرمیوں میں کوئی رکاوٹ نہیں کی جاتی تھی۔“

افسوس کہ اسلام کی اس بیش بہا دولت اور بے پناہ قوت سے آج ہمارا دامن خالی ہے، جس کے نتائجِ بد ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں۔

گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

$ $ $

 

----------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1، جلد: 99 ‏، ربیع الاول1436 ہجری مطابق جنوری 2015ء